analatics //ads بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب - poetry web 2 //adds

Wednesday 21 August 2019

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں







ہر رات تیری یاد کو سینے سے نکالا

جیسے کسی مورت  کو دفینے سے نکالا

اک خواہشِ  ناکام کو اس کو چۂ  دل سے

 بدلے تیرے تیور  تو قرینے سے نکالا

پاؤں تری دہلیز پے رکھنے کے سزاوار

 تونے جنہیں تکریم کے زینے سے نکالا

سکہ نہیں چلتا تری سرکار میں ورنہ

کیا کیا نہ ہنر ہم نے خزینے سے نکالا

ہم ایسے برے کیا تھے کے نفرت نہ محبت

 رکھّا نہ کبھی پاس نہ سینے سے نکالا

ٹھوکر  میں طلب کی رہے  ہر عمر میں ہم جان

یو ں جیت کے مفہوم کو جینے سے نکالا





 نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے







کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو

کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو



گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں

کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو



جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی

وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو



کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے

بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو



اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں

یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو



یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا

یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو



یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے

سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو



اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی

کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو







دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو







ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے

بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے



کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم

ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے



جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن

ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے



نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے

لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے



شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر

ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے



فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام

آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے







چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے









مقروض کہ بگڑے ہوئے حالات کی مانند

مجبور کہ ہونٹوں پہ سوالات کی مانند

دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے

سیلاب سے برباد مکانات کی مانند

میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں

اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند

دل روز سجاتا ہوں میں دلہن کی طرح سے

غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند

اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا

جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند

کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش

معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند

اس شخص سے ملنا محسن میرا ممکن ہی نہیں ہے

میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند







تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر









کسی بھی طور سے وہ شخص خوش رہے تو سہی

پھر اس کے بعد بچھڑنے ہی کون دے گا اسے

کہیں دکھائی تو دے وہ کبھی ملے ہی سہی

کہاں کا زعم ترے سامنے انا کیسی

وقار سے ہی جھکے ہم مگر جھکے تو سہی

جو چپ رہا تو بسا لے گا نفرتیں دل میں

برا بھلا ہی کہے وہ مگر کہے تو سہی

کوئی تو ربط ہو اپنا پرانی قدروں سے

کسی کتاب کا نسخہ کہیں ملے تو سہی

دعائے خیر نہ مانگے کوئی کسی کیلیے

کسی کو دیکھ کے لیکن کوئی جلے تو سہی

جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر

سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی







مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے

مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے







نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھے

قتیل میرے سامنے چُرا لیا گیا مجھے



کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں

تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے



براہِ راست رابطہ نہ مجھ سے تھا قبول انہیں

لکھوا کے خط رقیب سے بلا لیا گیا مجھے



جب ان کی دید کے لیے قطار میں کھڑا تھا میں

قطار سے نہ جانے کیوں ہٹا لیا گیا مجھے



میں روندنے کی چیز تھا کسی کے پاؤں سے مگر

کبھی کبھی تو زلف میں سجا لیا گیا مجھے



سوال تھا وفا ہے کیا جواب تھا کہ زندگی

قتیل پیار سے گلے لگا لیا گیا مجھے







امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت

کہ اس کافر کی ’ہاں‘ بھی اب ’نہیں‘ معلوم ہوتی ہے









کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے

جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں

ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے

کر دیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور

کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے

دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے

کبھی اس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے

اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر

آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے







اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں









یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا

تمہیں جس نے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں

جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں

جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو

اسے اتنی گرمئ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے

یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو







چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے











انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ

وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ

یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں

کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگاؤ

وہ کہانیاں ادھوری جو نہ ہو سکیں گی پوری

انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ

یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں

جو گیا وہ پھر نہ آیا مری بات مان جاؤ

کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک

جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ







تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں

مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا









ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ۔ اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر

دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

اے درد بتا کچھ تو ہی پتہ ۔ اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا

ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بےتاب ہیں ہم

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک

اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے

آجاو! جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم







فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ

بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے














تم اگر یوں ہی نظریں ملاتے رہے



مے کشی میرے گھر سے کہاں جائے گی



اور یہ سلسلہ مستقل ہو تو پھر



بے خودی میرے گھر سے کہاں جائے گی



اک زمانے کے بعد آئی ہے شامِ غم



شامِ غم میرے گھر سے کہاں جائے گی



میری قسمت میں ہے جو تمہاری کمی



وہ کمی میرے گھر سے کہاں جائے گی



شمع کی اب مجھے کچھ ضرورت نہیں



نام کو بھی شبِ غم میں ظلمت نہیں



میرا ہر داغِ دل کم نہیں چاند سے



چاندنی میرے گھر سے کہاں جائے گی



تو نے جو غم دیے وہ خوشی سے لیے



تجھ کو دیکھا نہیں پھر بھی سجدے کیے



اتنا مضبوط ہے جب عقیدہ میرا



بندگی میرے در سے کہاں جائے گی



ظرف والا کوئی سامنے آئے تو



میں بھی دیکھوں ذرا اس کو اپنائے تو



میری ہم راز یہ، اس کا ہم راز میں



بے کسی میرے گھر سے کہاں جائے گی



جو کوئی بھی تیری راہ میں مر گیا



اپنی ہستی کووہ جاوداں کر گیا



میں شہیدِ وفا ہو گیا ہوں تو کیا



زندگی میرے گھر سے کہاں جائے گی







شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے

زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے









سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا

جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا

میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں

پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا

میں زندگی کے ہر اک مرحلے سے گزرا ہوں

کبھی میں خار بنا اور کبھی گلاب ہوا

سمندروں کا سفر بھی تو دشت ایسا تھا

جسے جزیرہ سمجھتے تھے اک سراب ہوا

وہ پوچھتا تھا کہ آخر ہمارا رشتہ کیا

سوال اس کا مرے واسطے جواب ہوا

ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں

وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا

نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا

یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا





اسی لیے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر







دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا

دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا

تم سے ملے بھی ہم تو جدائی کے موڑ پر

کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا

کہتے تھے ایک پل نہ جیئیں گے ترے بغیر

ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا

کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بغیر روز و شب

میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا

آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آ گئی ہیں تنگ

دل میں بھی اب وہ شوق، وہ لپکا نہیں رہا

کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم

امجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا





یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری









پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا

اُسے آہ دامنِ باد نے سرِ شام ہی بجھا دیا

مجھے دفن کرنا تو جس گھڑی، تو یہ اُس سے کہنا

وہ جو تیرا عاشقِ زار تھا، تہ خاک اُس کو دبا دیا

دمِ غسل سے مرے پیشتر، اُسے ہمدموں نے یہ سوچ کر

کہیں جاوے نہ اس کا دل دہل مری لاش پر سے ہٹا دیا

مری آنکھ جھپکی تھی ایک پل میرے دل نے چاہا کہ اٹھ کہ چل

دلِ بیقرار نے او میاں! وہیں چٹکی لے کے جگا دیا

میں نے دل دیا، میں نے جان دی! مگر آہ تو نے قدر نہ کی

کسی بات کو جو کبھی کہا، اسے چٹکیوں میں اڑا دیا







حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو









مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو

کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو

کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا ضرور ہے

بِن میرے شائد آپ کی پہچان بھی نہ ہو

آشفتہ سر جو لوگ ہیں مشکل پسند ہیں

مشکل نہ ہو جو کام تو آسان بھی نہ ہو

محرومیوں کا ہم نے گلہ تک نہیں کیا

لیکن یہ کیا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ ہو

خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی

یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو

رونا یہی تو ہے کہ اسے چاہتے ہیں ہم

اے سعد جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو







نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے









قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق

سچ تو يہ ہے بری بلا ہے عشق



اثر غم ذرا بتا دينا

وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق



آفت جاں ہے کوئی پردہ نشيں

مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق



کس ملاحت سرشت کو چاہا

تلخ کامی پہ با مزا ہے عشق



ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني

دل رہا حسن و جاں رہا عشق



ديکھ حالت مری کہيں کافر

نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق



ديکھیے کس جگہ ڈبو دے گا

ميری کشتی کا نا خدا ہے عشق



آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے

با وفا حسن بے وفا ہے عشق



قيس و فرہاد وامق و مومن

مر گئے سب ہی کيا وبا ہے عشق







بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں









وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

شگفتہ شگفتہ بہانے ترے



بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات

جبینیں تری ، آستانے ترے



بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا

بہاریں تری، آشیانے ترے



فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی

ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے



فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی

شرابیں تری، بادہ خانے ترے





ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام

انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے



بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم

برے یا بھلے، سب زمانے ترے



عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ

کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے







 زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں









آپ کا اعتبار کون کرے

روز کا انتظار کون کرے



ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے

پر تمہیں شرمسار کون کرے



جو ہو اوس چشم مست سے بیخود

پھر اوسے ہوشیار کون کرے



تم تو ہو جان اِک زمانے کی

جان تم پر نثار کون کرے



آفتِ روزگار جب تم ہو

شکوہء روزگار کون کرے



اپنی تسبیح رہنے دے زاہد

دانہ دانہ شمار کون کرے



ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں

موت کا انتظار کون کرے



آنکھ ہے ترک زلف ہی صیّاد

دیکھیں دل کا شکار کون کرے



غیر نے تم سے بیوفائی کی

یہ چلن اختیار کون کرے



وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں

تجھ کو امیدوار کون کرے



داغ کی شکل دیکھ کر بولے

ایسی صورت کو پیار کون کرے







کہوں کس سے قصہ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے

جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے

مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر، ترا حال اکبرِ نوحہ گر

تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے









یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے

ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے



بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے

پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے



آئینگی ٹوٹ ٹوٹکر قاصد پر آفتیں

غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے



ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے

آتا ہے کون اس سے کہو یہ جُدا چلے



بالیں سے میرے آج وہ یہ کہہ کے اُٹھے گی

اس پر دوا چلے نہ کسی کی دعا چلے



موسیٰ کی طرح راہ میں پوچھی نہ راہ راست

خاموش خضر ساتھ ہمارے چلا چلے



افسانہء رقیب بھی لو بے اثر ہوا

بگڑی جو سچ کہے سے وہاں جھوٹ کیا چلے



رکھا دل و دماغ کو تو روک تھام کر

اس عمر بیوفا پہ مرا زور کیا چلے



بیٹھا ہے اعتکاف میں‌کیا داغ روزہ دار

اے کاش میکدہ کو یہ مردِ خدا چلے







اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر

مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نو بہار بن کر

یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی

وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر









کب سماں تھا بہار سے پہلے

غم کہاں تھا بہار سے پہلے



ایک ننھا سا آرزو کا دیا

ضوفشاں تھا بہار سے پہلے



اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا

آشیاں تھا بہار سے پہلے



اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا

تو کہاں تھا بہار سے پہلے



پچھلی شب میں خزان کا سناٹا

ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے



چاندنی میں‌یہ آگ کا دریا

کب رواں تھا بہار سے پہلے



بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل

جو دھواں تھا بہار سے پہلے



لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر

دل جواں‌تھا بہار سے پہلے







عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے

ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے









اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری



آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن

اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری



میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا

جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری



آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں

ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری



میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز

ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری





مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے











سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے

اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے

جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے

سب مایا ہے



ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی

یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی

بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے

سب مایا ہے



اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں

جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں

تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے

سب مایا ہے



معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی

سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی

فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے

سب مایا ہے



کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو

جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو

اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے

سب مایا ہے



جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں

تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں

دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے

سب مایا ہے



وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی

وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی

آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے

سب مایا ہے



جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں

وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں

ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے

سب مایا ہے



جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے

اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے

اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے

سب مایا ہے









ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے

کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے



آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے

اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے



ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے

آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے



کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا

مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے



یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ

اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے



میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے

تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے



دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر مجھے

یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے












ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

یہ بھی کافی نہیں‌ظالم کی پشیمانی کو



کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے

آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو



شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا

عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو



تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا

دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو



دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی

دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو



ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید

دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو



جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل

سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو









ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا

مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا



ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے

کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا



اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن

تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا



جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں

ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا



اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت

کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا



تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر

لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا



ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی

جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا



ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر

تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا



ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا

جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا



اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل

گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا



اچھی مری بدنامی تھی یا تری رُسوائی

گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامالِ جفا ہوتا



دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اُس کا

ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا



ہم بندگئ بت سے ہوتے نہ کبھی کافر

ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا











دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد



چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے

اب تک ہے وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد



کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں

کیجیئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد



جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش

اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد



کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو

مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد



مدت ہوئی اک حادثہ ء عشق کو لیکن

اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد









وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی

کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی



ہر ستمگر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے

کتنی خوش فہم ہے کمبخت جوانی اپنی



روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے

چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی



تجھ سے بچھڑے ہیں تو پایا ہے بیاباں کا سکوت!

ورنہ دریاؤں سے ملتی تھی روانی اپنی!



قحطِ پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو!

کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی



دشمنوں سے ہی اب غمِ دل کا مداوا مانگیں

دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی



آج پھر چاند افق پر نہیں ابھرا محسن

آج پھر رات نہ گزرے گی سہانی اپنی











گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں

جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں



مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!

دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں



مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو

میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں



حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے

غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں



ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا

چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں



میرے کِیسے میں تو اک سُوت کی انٹی بھی نہ تھی

نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں



رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں

بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں



چُن لے بازارِ ہنر سے کوئی بہروپ ندیمؔ

اب تو فنکار بھی شامل ہیں اداکاروں میں









رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے



جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں

اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے



اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے

بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے



احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں

آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے



کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن

احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے



کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں

پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے



اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے

دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے









بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے



منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں

منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے



میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا

میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے



نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے

اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے



گُم صُم کھڑی ہیں‌دونوں جہاں کی حقیقتیں

میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے



ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی

بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے













محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا

ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا



ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی

وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا



اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی

کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا



اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی

کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑدیا



آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ

آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑدیا



جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی

اُن محبّت کی روایات نے دم توڑدیا



جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی

جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا



ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر

لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا









بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا



چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی

اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا



اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے

پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا



اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے

اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا



عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی

جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا











سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا



کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے

بخیہ طلب ہے سینہء صد چاک شانہ کیا؟



زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف

قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟



چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر

دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا



طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال

ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا



صیّاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ

بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا



یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے

آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا











کس قدر آگ برستی ہے یہاں

خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں



صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں

پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں



رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا

اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں



زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر

کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں



زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز

موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں









تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے

دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے



میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا

بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے



سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم

مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے



بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟

دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟



چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں

قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے



بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں

تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے



تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد

یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے







ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا

بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا

میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ

ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا

میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا

فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا

سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا

جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا

پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی

مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا

ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں

کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا









تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی

شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی

انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب

بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو

مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے

یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا

کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا

یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا

وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر

بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی













اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے



کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے



دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا



وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے



اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں



روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے



اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے



واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے



سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی



روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے



سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو



وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے



جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف



قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے



اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود



میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے









دشت کی تیز ہواؤں میں بکھر جاؤگے کیا

ایک دن گھر نہیں جاؤ گے تو مر جاؤ گے کیا

پیڑ نے چاند کو آغوش میں لے رکھا ہے

میں تمھیں روکنا چاہوں تو ٹھہر جاؤگے کیا

یہ زمستانِ تعلق یہ ہوائے قربت

آگ اوڑھو گے نہیں یونہی ٹھٹھر جاؤگے

یہ تکلم بھری آنکھیں، یہ ترنّم بھرے ہونٹ

تم اسی حالتِ رسوائی میں گھر جاؤگے کیا

لوٹ آؤگے مرے پاس پرندے کی طرح

مری آواز کی سرحد سے گزر جاؤگے کیا

چھوڑ کر ناؤ میں تنہا مجھے عاصم تم بھی

کسی گمنام جزیرے پہ اُتر جاؤگے کیا

1 comment: